قریۂ جاں سے ہو کر گزرتا تھا جو راستہ یا اخی
قریۂ جاں سے ہو کر گزرتا تھا جو راستہ یا اخی
ایک سایہ بہت دیر اس پر ٹہلتا رہا یا اخی
اپنے ہی آپ سے دیر تک ہم بھی دست و گریباں رہے
دھند چھٹنے لگی اور سورج نکلنے لگا یا اخی
نارسائی کا احساس بھی درمیان یقیں آ گیا
چند قدموں پہ منزل تھی اور راستہ کھو گیا یا اخی
ہم کہ ابر کرم کی تمنا میں دشت و جبل تک گئے
ایک طوفاں غبار آشنا کر گیا تھا فضا یا اخی
اب تو جاں تک اترنے لگا خود کلامی کا دکھ کیا کہیں
اتنا آساں نہیں اپنے ہی آپ سے بولنا یا اخی
جس کے ہاتھوں میں ڈالے ہوئے ہاتھ پھرتے تھے ہم رات دن
کیا تمہیں یاد ہے تم بتاؤ کہ وہ کون تھا یا اخی
خود فریبی ہی اس عہد میں زندہ رہنے کا سامان ہے
مر ہی جائیں اگر چھوڑ دیں خواب کا دیکھنا یا اخی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.