قطرۂ اشک سے تسکین جگر کی امید
قطرۂ اشک سے تسکین جگر کی امید
قلزم چشم سے ہے آب گہر کی امید
غم میں ہوتی ہے عجب خیز بشر کی امید
درد جانکاہ فراق اور سحر کی امید
قتل کو اس نے پس از عمر نکالی تلوار
بعد مدت کے بر آئی مرے سر کی امید
نظر آتا ہے بیاباں سے عدم کو جانا
خاک ہو درد جنوں میں مجھے گھر کی امید
اس نے دیکھا نہ مرا حال زبوں تا دم مرگ
جان کے ساتھ گئی ایک نظر کی امید
وعدۂ وصل میں تھا کس قدر انداز فریب
نہ تھی امید وفا اس سے مگر کی امید
ضبط غم ترک ہوس پاس وفا کرتا ہوں
آہ کے ساتھ رہی دل میں اثر کی امید
تیرے قدموں میں ہی غلطاں نہ ہوا زینت گوش
خاک میں مل گئی افسوس گہر کی امید
کاوش تیر کہاں برش شمشیر کہاں
دل کی حسرت ہے عبث اور جگر کی امید
پونچھتے پونچھتے آنسو مرے وہ شرمائے
کیوں کہا ہائے یہ تھی دیدۂ تر کی امید
آرزو ہے کہ دل صاف میں ہو جلوۂ یار
روشن آئینہ سے ہے آئینہ گر کی امید
شمع ساں صبح شب وعدہ ہوا جل کے تمام
ہو گئی خاک مری چار پہر کی امید
دیدۂ شوق بنے محو تماشا ٹھہرے
تیرا جلوہ ہے مگر شمس و قمر کی امید
ابھی وہ حال ہے جو صدمۂ شب سے ہوتا
شام ہجراں نظر آتی ہے سحر کی امید
ہاتھ سے اس کے ہوئے قتل نہ غم ہی سے ہلاک
پوری ہوتی ہے ادھر کی نہ ادھر کی امید
ضعف اچھا ہے رفیق اپنا طریق غم میں
ہر قدم کیوں نہ ہو انجام سفر کی امید
تم کو سودا ہے ذکیؔ آہ میں تاثیر کہاں
شجر بید سے رکھتے ہو ثمر کی امید
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.