قیامت وقت سے پہلے گزر جائے تو اچھا ہو
قیامت وقت سے پہلے گزر جائے تو اچھا ہو
نظر کچھ دیر جلووں پر ٹھہر جائے تو اچھا ہو
اگر غم ضبط کی حد سے گزر جائے تو اچھا ہو
فریب رنگ و بو دل سے اتر جائے تو اچھا ہو
مری بربادیاں ہی درس عبرت کاش بن جائیں
کسی صورت سے یہ دنیا سنور جائے تو اچھا ہو
محبت معتقد کب تک رہے گی اشک و شبنم کی
مرا ساغر مئے عرفاں سے بھر جائے تو اچھا ہو
زمانہ میرے دل کی دھڑکنوں کو کھیل سمجھا ہے
یہ عالم خیر سے یوں ہی گزر جائے تو اچھا ہو
مصیبت در حقیقت ایک تمہید مسرت ہے
مآل غم پہ دنیا کی نظر جائے تو اچھا ہو
نظر آئی تو ہے دھندلی سی اک تصویر ساحل پر
کہیں اب دل کی کشتی بھی ٹھہر جائے تو اچھا ہو
فریب حسن کی رنگینیاں بکھری ہیں گلشن میں
محبت بے نیازانہ گزر جائے تو اچھا ہو
زمانہ باغباں کے ظلم پر تنقید کرتا ہے
ذرا مجبوریوں پر بھی نظر جائے تو اچھا ہو
جہاں لاکھوں تمناؤں کا خوں غم نے بہایا ہے
وہیں جینے کی یہ حسرت بھی مر جائے تو اچھا ہو
کہاں تک شوقؔ دیکھا جائے آئینہ فریبوں کا
اب ان آنکھوں سے یہ خواب سحر جائے تو اچھا ہو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.