قسمت کی لکیروں کے ستم ہم نے سہے ہیں
قسمت کی لکیروں کے ستم ہم نے سہے ہیں
دریا تھے کبھی ہم بھی پر اب پیاسے کھڑے ہیں
صحرا میں دیا بن کے جنہیں رستہ دکھایا
وہ لوگ ہواؤں کے قبیلے میں کھڑے ہیں
بستی میں ہماری ہیں بہت چاند ستارے
سورج کے اشاروں پہ مگر چلنے لگے ہیں
دستار کو قدموں میں کسی کے نہیں رکھا
یہ بات الگ ہے کہ غریبی میں پلے ہیں
تم آئنوں کو زنگ لگا کر کہیں رکھ دو
ہم آئنوں سے بات تری کرنے لگے ہیں
خوابوں کے پلندے کو لئے ساتھ میں تنہا
تعبیر کے بازار میں برسوں سے کھڑے ہیں
خوابوں میں ہر اک رات ترا آ کے ستانا
بے ساختہ ہر خواب پہ ہم ہنسنے لگے ہیں
یہ نور جو اٹھتا ہوا تم دیکھ رہے ہو
یہ اشک ہمارے ہیں جو آنکھوں سے ڈھلے ہیں
وہ گھر جو بزرگوں نے بنایا تھا لہو سے
دن رات وسیمؔ اس کی مرمت میں لگے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.