قرب اس کا دل زار کو تڑپائے ہے کچھ اور
قرب اس کا دل زار کو تڑپائے ہے کچھ اور
ہے درد وہ درماں سے جو بڑھ جائے ہے کچھ اور
کیا ہے یہ طلسمات جہاں عقل ہے سردار
ہے اصل میں کچھ اور نظر آئے ہے کچھ اور
سرد آہوں سے مظلوموں کی تڑپے ہے دل زار
چلنے سے ہوا غنچہ یہ مرجھائے ہے کچھ اور
لذت تری شیریں سخنی میں بھی ہے لیکن
دل تلخیٔ دوراں میں مزا پائے ہے کچھ اور
بس کر نگہ ناز تری تاب نہیں اب
یہ لطف دل زار کو تڑپائے ہے کچھ اور
شوریدگی دل کا ہے عالم ہی نرالا
رنگ اب کی بہاراں میں جنوں لائے ہے کچھ اور
بڑھتا ہے جنوں وادئ الفت میں زیادہ
اس دشت میں تلوا مرا کھجلائے ہے کچھ اور
اس پر بھی کبھی ہوگی نگاہ کرم یار
دل اس کے تصور سے ہی اترائے ہے کچھ اور
اکثر نگہ قہر کے صدمے سہے لیکن
تیری نگہ لطف ستم ڈھائے ہے کچھ اور
عقدہ نہ حقیقت کا کھلے دست خرد سے
سلجھانے سے گتھی یہ الجھ جائے ہے کچھ اور
جتنی اسے بہلانے کی کرتے ہیں سعی لوگ
دل اپنا ولیؔ اتنا ہی گھبرائے ہے کچھ اور
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.