قصور عشق میں ظاہر ہے سب ہمارا تھا
قصور عشق میں ظاہر ہے سب ہمارا تھا
تری نگاہ نے دل کو مگر پکارا تھا
وہ دن بھی کیا تھے کہ ہر بات میں اشارا تھا
دلوں کا راز نگاہوں سے آشکارا تھا
ہوائے شوق نے رنگ حیا نکھارا تھا
چمن چمن لب و رخسار کا نظارا تھا
فریب کھا کے تری شوخیوں سے کیا پوچھیں
حیات و مرگ میں کس کی طرف اشارا تھا
سجود حسن کی تمکیں پہ بار تھا ورنہ
جبین شوق کو یہ ننگ بھی گوارا تھا
چمن میں آگ نہ لگتی تو اور کیا ہوتا
کہ پھول پھول کے دامن میں اک شرارا تھا
تباہیوں کا تو دل کی گلہ نہیں لیکن
کسی غریب کا یہ آخری سہارا تھا
بہت لطیف تھے نظارے حسن برہم کے
مگر نگاہ اٹھانے کا کس کو یارا تھا
یہ کہیے ذوق جنوں کام آ گیا تاباںؔ
نہیں تو رسم و رہ آگہی نے مارا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.