قطب غیاث قلندر علی ولی مٹی
قطب غیاث قلندر علی ولی مٹی
تمہارے عشق میں کیا کیا نہیں ہوئی مٹی
ہے مرغ عقل ابھی تک اسی کشاکش میں
فلک سے آگے کہاں تک چلی گئی مٹی
پھر ایک نور نے اس میں قیام فرمایا
میں سوچتا تھا کہ کس واسطے بنی مٹی
یہ لوگ کیوں مجھے سر پر اٹھائے پھرتے ہیں
یہ کس مزار سے مس ہو گئی مری مٹی
یہ کس نے خون کے آنسو رلا دئے اس کو
یہ کس کے ذکر پہ یوں سرخ ہو اٹھی مٹی
یہ زلزلوں کا تسلسل یہ سوکھتی ندیاں
بتا رہے ہیں کہ حد سے نکل گئی مٹی
خدا قسم مری تربت سے نور پھوٹے گا
تمہارے ہاتھ سے مجھ پر اگر پڑی مٹی
ارے او نام نہادو یہ کس گمان میں ہو
نہ جانے کتنے خداؤں کو کھا گئی مٹی
ہمارے پاؤں میں چھالے تو پڑ گئے لیکن
ہمارے عزم سے شادابؔ ہو گئی مٹی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.