راہ وفا میں سایۂ دیوار و در بھی ہے
راہ وفا میں سایۂ دیوار و در بھی ہے
لیکن اسی پہ جان سے جانے کا ڈر بھی ہے
وقفہ ہے زندگی تو فقط چند روز کا
پھر شہر رنگ و بو کی طرف اک سفر بھی ہے
روشن رکھو چراغ لہو سے تمام شب
ہر رات کے نصیب میں آخر سحر بھی ہے
کردار دیکھنے کی روایت نہیں رہی
اب آدمی یہ دیکھتا ہے مال و زر بھی ہے
سن تو رہے ہو بات یوں واعظ کی غور سے
لیکن یقین اس کی کسی بات پر بھی ہے
دامان گل رخاں کی تمنا بھی دوستو
کتنا حسین خواب ہے تم کو خبر بھی ہے
میرا بیان شوق بھلا رائیگاں ہو کیوں
تحریر میں نہاں مرا خون جگر بھی ہے
یوں تو کوئی عزیز ہیں اور دوست بھی مگر
شایانؔ یہ بتاؤ کوئی معتبر بھی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.