راہ میں جو بھی رکاوٹ ہو ہٹا دینا ہے
راہ میں جو بھی رکاوٹ ہو ہٹا دینا ہے
لاکھ اونچی سہی دیوار گرا دینا ہے
ہم پہ اس عہد کا جو قرض چلا آتا ہے
اب کے جیسے بھی ہو وہ قرض چکا دینا ہے
اپنی غیرت پہ بہت ظلم کیے ہیں ہم نے
خود کو اب اپنے ہی ہاتھوں سے سزا دینا ہے
تاکہ پسپائی کا امکان ہی باقی نہ رہے
ایک بار اور سفینوں کو جلا دینا ہے
ہم ابھی چپ ہیں مگر روز حساب آنے دو
ہم کو معلوم ہے کیا لینا ہے کیا دینا ہے
باد صرصر سے کوئی اور توقع بے سود
اس کی فطرت تو چراغوں کو بجھا دینا ہے
اب توقف کی ضرورت ہے نہ خوش فہمی کی
فتنۂ جبر کو بر وقت دبا دینا ہے
ہم نے سیکھا ہے اذان سحری سے یہ اصول
لوگ خوابیدہ سہی ہم کو صدا دینا ہے
ہم کو حالات نے مجبور کیا ہے ورنہ
ہم فقیروں کا تو معمول دعا دینا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.