راحت جاں تھا وہی اب دشمن جاں ہو گیا
راحت جاں تھا وہی اب دشمن جاں ہو گیا
ظرف مرہم اپنی قسمت سے نمکداں ہو گیا
زندگی پر بس نہیں ہے موت پر قابو نہیں
بس انہیں مجبوریوں کا نام انساں ہو گیا
خون کی چھینٹوں سے وحشی نے کھلائے اتنے گل
اک چمن چھوٹا سا بر دیوار زنداں ہو گیا
خون کا دعویٰ تو کیسا اور الٹا حشر میں
کٹ گیا میں جب مرا قاتل پشیماں ہو گیا
ہٹئے ہٹئے نغمۂ ہستی سے لو اٹھنے لگی
بچئے بچئے میرے جل بجھنے کا ساماں ہو گیا
ضبط کی دنیا ڈبو دی ایک آنسو نے مرے
بوند بھر پانی بڑھا اتنا کہ طوفاں ہو گیا
اشک خونی نے مرے نشترؔ وہ کیں گلکاریاں
میرا دامن ایک چھوٹا سا گلستاں ہو گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.