رعنائی حیات ہوئی کم ہے ان دنوں
رعنائی حیات ہوئی کم ہے ان دنوں
یادش بخیر زیست کو اک غم ہے ان دنوں
وہ دن گئے کہ قطرۂ شبنم تھی کائنات
دل اپنا اب تو قطرۂ شبنم ہے ان دنوں
فکر بہار ہے نہ تو گلشن کی یاد ہے
لے دے کے ایک تیرا ہی بس غم ہے ان دنوں
راہ وفا میں ٹھوکریں کھاتا جبھی تو ہوں
قسمت میں اپنی لغزش پیہم ہے ان دنوں
آنکھیں چراتا پھرتا ہوں ہر جلوہ گاہ سے
ڈرتا ہوں روشنی سے یہ عالم ہے ان دنوں
اے واعظ حریص مبارک تجھے وہ خلد
میری نظر میں خلد دو عالم ہے ان دنوں
فرمائش خمار پہ کیسے کہوں غزل
مشق سخن بھی دیکھیے اب کم ہے ان دنوں
دیوانؔ کس خوشی میں چلے جھومتے ہوئے
کیا پھر کسی سے رشتۂ محکم ہے ان دنوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.