راس آئی ہے مجھے گردش ایام بہت
عمر بھر دل نے پئے درد بھرے جام بہت
آج پھر خود سے سر راہ ملاقات ہوئی
بے سبب خود کو کیا آج بھی بدنام بہت
رنگ دیتی ہے شفق زخم جدائی کو مرے
یاد آتا ہے کوئی مجھ کو سر شام بہت
چند قطرے جو مری چشم تمنا سے گرے
دیر سے آئے مگر آئے مرے کام بہت
رات بھر ہجر کی تصویر کشی کرتے رہے
رات بھر وصل سے ملتا رہا انعام بہت
میں نے اس دیدۂ پر نم کو کئی بار پڑھا
اشک آلود نگاہوں میں تھے پیغام بہت
شدت درد کا احساس بڑھانے کے لئے
آج آیا ہے مرے لب پہ ترا نام بہت
کس لئے دنیا فقط میری تماشائی رہی
عشق میں لوگ ہوا کرتے ہیں ناکام بہت
عشق کی ایک خطا تجھ سے بھلائی نہ گئی
زندگی تو نے ستایا مجھے ہر گام بہت
کھائے جاتی ہے یہاں میری ہی تنہائی مجھے
یاد آتے ہیں مجھے گھر کے در و بام بہت
کون آئے گا مرے حق میں گواہی کے لئے
چاک داماں پہ لگے ہیں مرے الزام بہت
قبر میں فرصت ہستی کو ترستا ہے شکیلؔ
سوچتا تھا کہ ملے گا وہاں آرام بہت
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.