راستہ چاہئے دریا کی فراوانی کو
ہے اگر زعم تو لے روک لے طغیانی کو
آئنہ ٹوٹ گیا شکل کے ذرے بکھرے
کیا چھپاتا ہے اب اس دشت کی ویرانی کو
آب یاری جو ہوئی ہے تو شجر بھی ہوں گے
تو نے سمجھا تھا غلط خون کی ارزانی کو
لے یہ طوفاں تری دہلیز تک آ پہنچا ہے
برف سمجھا تھا اسی ٹھہرے ہوئے پانی کو
سرخ رو ہوں کہ میں اس آگ سے کندن نکلا
شعلۂ خوں نے اجالا مری پیشانی کو
میں اتر آیا ہوں اس پار جہاں موت نہیں
مل گیا جسم نما روح کی عریانی کو
واقعہ عام ہوا دھوپ کی کرنوں کی طرح
دیکھ لے ہاتھ لگا کر مری تابانی کو
پھر نئی فصل کا موسم ہے دعا کر شاہدؔ
ابر سیراب کرے خطۂ بارانی کو
- کتاب : Subh-e-safar (Pg. 24)
- Author : Saleem Shahid
- مطبع : Ham asr, Lahore (1971)
- اشاعت : 1971
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.