راستہ ہی راستہ تھا نقش پا تھا ہی نہیں
راستہ ہی راستہ تھا نقش پا تھا ہی نہیں
دشت وحشت میں کوئی اپنے سوا تھا ہی نہیں
ابتدا سے پڑھ چکے دل کی کتاب آخر تلک
لیکن اس میں تو کہیں ذکر وفا تھا ہی نہیں
وہ کوئی گور غریباں تھا کہ تھا شہر غزل
آس پاس اس کے کوئی آتش نوا تھا ہی نہیں
حسن سیرت سے منور تھی فضائے انجمن
اتنے چہروں کے مقابل آئنہ تھا ہی نہیں
صاحب احساس ہی سنتے رہے غیروں کا دکھ
اپنا غم از ابتدا تا انتہا تھا ہی نہیں
وہ تو تھے اقبالؔ بس ہر حال میں سرشار عشق
بندگان عشق کو روز جزا تھا ہی نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.