رات آنکھوں میں گزری سپنے بھیگ گئے
رات آنکھوں میں گزری سپنے بھیگ گئے
بارش سے کھڑکی کے شیشے بھیگ گئے
بارش کی بوچھاڑ تو اندر تک آئی
خشک تنوں کے سب اندازے بھیگ گئے
بھیگ گئے سب اپنی اپنی یادوں میں
کچھ روتے کچھ ہنستے ہنستے بھیگ گئے
بھیگ گئے سب خط رکھے الماری میں
اور ان میں سب لکھے وعدے بھیگ گئے
دیکھ دیے کی لو تو نے تو دیکھے ہیں
کتنی آنکھیں کتنے تکیے بھیگ گئے
بادل کے ہم راہ سکول سے نکلے تھے
گھر تک آتے آتے بستے بھیگ گئے
اڑتے پنچھی تیری منزل دور ہے کیا
دیکھ مسافر تیرے کپڑے بھیگ گئے
رات ستارے آنگن اور اداس آنکھیں
تیری باتیں کرتے کرتے بھیگ گئے
باہر آ کر دیکھ یہ منظر شہزادی
ہم تیری دہلیز پہ بیٹھے بھیگ گئے
جانے کیسے موسم کی یہ بارش تھی
میری آنکھیں تیرے سپنے بھیگ گئے
جس بستی میں دھوپ سا روپ چمکتا تھا
اس بستی کے سارے رستے بھیگ گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.