رات بے پردہ سی لگتی ہے مجھے
خوف نے ایسی نظر دی ہے مجھے
آہ اس معصوم کو کیسے بتاؤں
کیوں اسے کھونے کی جلدی ہے مجھے
جوش میں ہیں اس قدر تیماردار
ٹھیک ہوتے شرم آتی ہے مجھے
اک لطیفہ جو سمجھ میں بھی نہ آئے
اس پہ ہنسنا کیوں ضروری ہے مجھے
منتشر ہونے لگے سارے خیال
نیند بس آنے ہی والی ہے مجھے
اب جنوں کم ہونے والا ہے مرا
خیر اتنی تو تسلی ہے مجھے
لاکھ مدھم ہو تری چاہت کی لو
روشنی اتنی ہی کافی ہے مجھے
گرد ہے بارود کی سر میں تو کیا
موت اک افواہ لگتی ہے مجھے
- کتاب : کھڑکی تو میں نے کھول ہی لی (Pg. 57)
- Author :شارق کیفی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2022)
- اشاعت : 3rd
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.