رات بھر تنہا رہا دن بھر اکیلا میں ہی تھا
رات بھر تنہا رہا دن بھر اکیلا میں ہی تھا
شہر کی آبادیوں میں اپنے جیسا میں ہی تھا
میں ہی دریا میں ہی طوفاں میں ہی تھا ہر موج بھی
میں ہی خود کو پی گیا صدیوں سے پیاسا میں ہی تھا
کس لیے کترا کے جاتا ہے مسافر دم تو لے
آج سوکھا پیڑ ہوں کل تیرا سایا میں ہی تھا
کتنے جذبوں کی نرالی خوشبوئیں تھیں میرے پاس
کوئی ان کا چاہنے والا نہیں تھا میں ہی تھا
دور ہی سے چاہنے والے ملے ہر موڑ پر
فاصلے سارے مٹانے کو تڑپنا میں ہی تھا
میری آہٹ سننے والا دل نہ تھا دنیا کے پاس
راستے میں اشکؔ بے مقصد جو بھٹکا میں ہی تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.