رات اک بے تاب جذبے کی طرح ڈھلتی رہی
رات اک بے تاب جذبے کی طرح ڈھلتی رہی
تھک گئے تھے شوخ منظر اور فضا تھی سو گئی
جگنو جگنو سی چمک ہے آج پلکوں پر سجی
شورشیں احساس کی شاید جواں ہیں آج بھی
ارتکاز فکر ہے شاید بھٹکتی آگہی
لمحہ لمحہ روٹھتی جائے مری آوارگی
گنگناتی ہے فضا صد برگ سی صد رنگ سی
لمحہ لمحہ ناچتی ہے فکر و فن کی تازگی
خلوتوں کی گفتگو میں جلوتوں کے روپ میں
نکھری نکھری سی لگے ہے سوچ کی دوشیزگی
قد مرے تخئیل کا شاید چھلاوا بن گیا
عریاں عریاں سی لگے ہے خوش لباسی شوق کی
شوخ سی مورت اجنتا کی کھڑی ہے روبرو
مرمریں انگڑائیوں میں جلوہ گر ہے شاعری
پھر در دل پر ہے شاید اک اجازت کی طرح
کھوئی کھوئی دستکوں کی اک تھکن خاموش سی
جھن جھنن سی ہو رہی ہے آج پھر من کے گگن
ہر نفس آواز دیتی ہے مسافت دور کی
یہ نگاہوں کی نگاہوں سے نرالی گفتگو
پھر سوالوں کی جوابوں سے ہوئی ہے دوستی
مصلحت تو بالیقیں کچھ عادتاً مجبور ہے
سو گئی ہے آخرش اب رات کی بھی تیرگی
دل کے اندر موسم صد رنگ کی ہیں شورشیں
بے کراں ہے روشنی بھی بے کراں ہے تیرگی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.