رات نے اپنی راکھ اٹھائی دن رکھا دروازے پر
رات نے اپنی راکھ اٹھائی دن رکھا دروازے پر
جمنے لگی تھیں کہر میں آہیں کون رکا دروازے پر
اربوں لوگوں تک جانا تھا سب کا حصہ پہنچانا تھا
بوڑھا دن بھی خوب تھکا تو آن گرا دروازے پر
دو آنکھیں اور خواب ہزاروں ریشم کے جزدانوں میں
کون مسافر اپنا ساماں چھوڑ گیا دروازے پر
نم آنکھوں سے جانے والا کیسا وعدہ سونپ گیا
ایک یقیں کا بیج گرا اور پیڑ اگا دروازے پر
گلی کی کچی برف پہ کس کے پیروں کا ہے تازہ نقش
بے دستک جو لوٹ گیا کون آیا تھا دروازے پر
اس اک رخت سفر کی خوشبو سارے سفر میں ساتھ رہی
اس نے چلتے وقت جو ہات پہ بوسہ دیا دروازے پر
کبھی نہ آنے والے ایک مسافر کے امکان اندر
شب بھر بیل پر کان رہے اور دھیان رہا دروازے پر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.