راز دل کا یوں کھلا قرطاس پر
راز دل کا یوں کھلا قرطاس پر
ایک آنسو گر گیا قرطاس پر
اک بھرم تھا یوں زباں نہ کھل سکی
اور سب کچھ کہہ دیا قرطاس پر
سچ کو دیکھا لفظ گونگے ہو گئے
کس طرح دیتی صدا قرطاس پر
تھیں ملاقاتیں بھی کاغذ کی طرح
ہو رہا ہے فاصلہ قرطاس پر
میری روداد غم الفت سنی
اور قلم بھی رو دیا قرطاس پر
آنے والوں کے جگر چھلنی نہ ہوں
لکھ دو ایسا فلسفہ قرطاس پر
لفظ صدیوں سے رہے نوحہ کناں
وقت سے میں نے کہا قرطاس پر
خامشی کی چیخ تھی لفظوں میں اور
درد نے سب کہہ دیا قرطاس پر
خود لکھا اور خود ہی خود کو پڑھ لیا
مل گیا ہے راستہ قرطاس پر
بس حقیقت تھی قلم تھا ہاتھ میں
ہو گیا سب آئنہ قرطاس پر
تو نے بھی دنیا سے منہ موڑا نسیمؔ
اور قلم بھی چل دیا قرطاس پر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.