راز فطرت سے عیاں ہو کوئی منظر کوئی دھن
راز فطرت سے عیاں ہو کوئی منظر کوئی دھن
ساز ہستی سے بھی نکلے کوئی پیکر کوئی دھن
میں وہ آواز جو اب تک ہے سماعت سے پرے
میں وہ نغمہ ابھی اتری نہیں جس پر کوئی دھن
اک غزل چھیڑ کے روتا رہا مجھ میں کوئی
اک سماں باندھ کے ہنستی رہی مجھ پر کوئی دھن
اونگھنے لگتی ہے جب پاؤں کے چھالوں کی تپک
چھیڑ دیتے ہیں مری راہ کے پتھر کوئی دھن
عقل فرمان سناتی رہی ٹوٹا نہ جمود
رقص وحشت کا تقاضا تھا مکرر کوئی دھن
وقت کی لے سے ہم آہنگ جو ہوتا ہوں ندیم
بین کرتی ہے کہیں روح کے اندر کوئی دھن
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.