راز ابل پڑے آخر آسماں کے سینوں سے
راز ابل پڑے آخر آسماں کے سینوں سے
ربط اس زمیں کو ہے اور بھی زمینوں سے
کون سا جہاں ہے یہ کیسے لوگ ہیں اس میں
اٹھتا ہے دھواں ہر دم دل کے آبگینوں سے
ہر بشر ہے فریادی ہر طرف اندھیرا ہے
مہر و مہ نہیں نکلے شہر میں مہینوں سے
اک طرف زبانوں پر دوستی کے نعرے ہیں
اک طرف ٹپکتا ہے خون آستینوں سے
مفلسوں کی بستی میں وسعتیں ہیں دنیا کی
آپ اتر کے دیکھیں تو اپنی شہ نشینوں سے
نا خدا کی ہمت کا امتحان لیتی ہے
ورنہ کد نہیں کچھ بھی موج کی سفینوں سے
تجربوں کی دنیا میں اہل علم و حکمت کو
رفعتیں ملیں فرحتؔ فکر و فن کے زینوں سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.