رچے بسے ہوئے لمحوں سے جب حساب ہوا
رچے بسے ہوئے لمحوں سے جب حساب ہوا
گئے دنوں کی رتوں کا زیاں ثواب ہوا
گزر گیا تو پس موج بے کناری تھی
ٹھہر گیا تو وہ دریا مجھے سراب ہوا
سپردگی کے تقاضے کہاں کہاں سے پڑھوں
ہنر کے باب میں پیکر ترا کتاب ہوا
ہر آرزو مری آنکھوں کی روشنی ٹھہری
چراغ سوچ میں گم ہیں یہ کیا عذاب ہوا
کچھ اجنبی سے لگے آشنا دریچے بھی
کرن کرن جو اجالوں کا احتساب ہوا
وہ یخ مزاج رہا فاصلوں کے رشتوں سے
مگر گلے سے لگایا تو آب آب ہوا
وہ پیڑ جس کے تلے روح گنگناتی تھی
اسی کی چھاؤں سے اب مجھ کو اجتناب ہوا
ان آندھیوں میں کسے مہلت قیام یہاں
کہ ایک خیمۂ جاں تھا سو بے طناب ہوا
صلیب سنگ ہو یا پیرہن کے رنگ نصیرؔ
ہمارے نام سے کیا کیا نہ انتساب ہوا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.