رفاقتوں کا بھرم توڑ جانے والا نہیں
رفاقتوں کا بھرم توڑ جانے والا نہیں
مقابلے میں اگر آیا تر نوالہ نہیں
پڑی ہوئی ہے نسب قیس سے ملانے کی
کسی نے دشت مکمل مگر کھنگالا نہیں
یہاں بلند صدائیں لگا غبار اڑا
دیار عشق ہے تہذیب کا حوالہ نہیں
ہمارے عہد کے سقراط مصلحت بیں ہیں
کسی کے ہاتھ میں بھی زہر کا پیالا نہیں
سفر میں رہنے سے اس کو قرار رہتا ہے
یہ زخم دل کا ہے پاؤں کا کوئی چھالا نہیں
ہوا کے ہاتھ لگی خوشبوؤں ذرا سن لو
سنبھالے کون اگر پھول نے سنبھالا نہیں
یہ جس نے رزق کی تنگی پہ خودکشی کر لی
کہیں سماج نے مل کر تو مار ڈالا نہیں
کریں گے یوں ہی سدا انتظار ساحل پر
گہر تہوں سے سمندر نے جو اچھالا نہیں
یہ احتیاط پسندی کہاں سے آئی ہے
اگر زباں پہ کوئی مصلحت کا تالا نہیں
کہانیاں نہ تراشیں خیالی دنیا کی
کہاں جہان میں تفریق پست و بالا نہیں
اجارہ داریاں قائم ہیں کس لئے جاذبؔ
کوئی حوالہ اگر معتبر حوالہ نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.