رگوں میں میری شراروں کا رقص جاری ہے
رگوں میں میری شراروں کا رقص جاری ہے
جنوں ہے رنج ہے غم ہے کہ بے قراری ہے
دل اسیر کے زخموں میں کیا نہیں موجود
وفا ہے عشق ہے وحشت ہے جاں نثاری ہے
لبوں پہ دشت ہے آنکھوں میں خون کے دھبے
سمندروں سے مگر اپنی روبکاری ہے
ادائے ناز سے کرتا ہے ظلم وہ مجھ پر
اسے نہ خوف خدا ہے نہ شرمساری ہے
ہوا میں گھلتی ہوئی خوشبوؤں نے فرمایا
گریز تم سے نہیں جگ سے پردہ داری ہے
جسے گلے سے لگایا بنا دیا سورج
بلندیوں سے کہیں بڑھ کے خاکساری ہے
تھرک رہے ہیں منڈیروں پہ مور خواہش کے
وہ جب سے آیا ہے دل میں سرور طاری ہے
تمہارے چہرے سے بہتا ہے نور کا جھرنا
تمہاری زلفوں سے عالم میں آبیاری ہے
فلک سے ہوتی ہے نازل دعاؤں کی تنویر
عبادتوں سے مرا رنگ آہ و زاری ہے
قریب آ کے کبھی دیکھو میری تنہائی
اس انتظار کے دامن میں کیا خماری ہے
پرندے شاخ سے اک ایک کر کے اڑتے گئے
ہمیں بچے ہیں ہماری بھی اب کے باری ہے
بدن تو صورت دیوار اشتہار ہوا
زباں پہ عشق کے چھالوں کی لالہ کاری ہے
ڈھلی ہے شام بجھانے میں آگ سورج کی
چراغ درد جلانے میں شب گزاری ہے
ہمارے خواب بھٹکتے ہیں دشت و صحرا میں
کسے بتائیں کہ کیا آرزو ہماری ہے
ندیمؔ دونوں جہاں اس کی دوستی پہ نثار
اسی سے رنج اسی سے ہی غم گساری ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.