رہ جنوں جو نشان قدم اکٹھا تھے
وہ ہم نہیں تھے وجود و عدم اکٹھا تھے
حیات اصل معانی میں کھل کے آئی تھی
اس ایک سال میں سارے جنم اکٹھا تھے
یہاں میں اپنی اداسی بتانے آؤں گا
کسی درخت پہ لکھ دو کے ہم اکٹھا تھے
شب فراق تھی اور میں خدا سے غصہ تھا
فلک پہ سارے نجوم ایک دم اکٹھا تھے
تری چھون سے رواں ہو گئے ہیں برجستہ
ہزاروں سیل تمنا کے نم اکٹھا تھے
تمہارا ہجر بہانا بنا ہے پچھلوں کا
یہ مجھ پہ آج کھلا اتنے غم اکٹھا تھے
ہمارا ذہن بھی مسجد کے صحن جیسا رہا
جگہ بہت تھی مگر لوگ کم اکٹھا تھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.