رہ رہ کے ہوتی جاتی ہے دنیا تمام شد
رہ رہ کے ہوتی جاتی ہے دنیا تمام شد
ہوتا نہیں ہے عشق کا قصہ تمام شد
پیاسے تو اپنے ہونٹ بھگو کر چلے گئے
لیکن ہوس سے کب ہوا دریا تمام شد
بکھرا کے موتی عشق کے ہر نقش پا کے ساتھ
اس نے کیا ہے دشت تمنا تمام شد
گرتا ہے ایک پردا اندھیرے کا زیست پر
ہوتا ہے روز ایک تماشہ تمام شد
کچھ بھی نہیں بچے گا جہاں میں سوائے عشق
مجنوں تمام ہو گیا لیلیٰ تمام شد
غنچو کی موج اس کے تبسم پہ ہے عیاں
کر دے گی میری آنکھوں کا صحرا تمام شد
آنکھوں میں لے کے پھرتی ہے ناز و ادا کے رنگ
لہرا کے کھینچ لوں تو ہو صہبا تمام شد
اک زخم جس میں تیر بھی پایا گیا نہ جذب
اس پر ہوا ہے علم مسیحا تمام شد
ڈوبیں گے ایک قلزم خوں ہی میں ہم سبھی
ہوگی ہر ایک ہستی اشیا تمام شد
کہہ کر گیا یہ عاشق بیدار عرش سے
ہم جا رہے ہیں تم کرو چرچا تمام شد
اٹھے گی جب بھی موج قیامت کی تب ندیمؔ
کعبہ تمام ہوگا کلیسا تمام شد
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.