رہا عشق میں قلب مضطر نکل کر
رہا عشق میں قلب مضطر نکل کر
تڑپ کر پھڑک کر مچل کر اچھل کر
رہے گا جنوں جسم پر خاک مل کر
سوئے دشت جاؤں گا کپڑے بدل کر
کبوتر کو بھیجا ہے صورت بدل کر
لگائے ہیں پر روغن قاز مل کر
نہیں ہم وہ بسمل کہ ہو جائیں ٹھنڈے
وہ تھکتے ہیں لاشے پہ کافور مل کر
کسے جاؤ تم بند محرم مری جاں
کہاں جائے گا دیکھیں جوبن نکل کر
ملی خاک میں آبروئے محبت
ڈبویا مجھے آنسوؤں نے نکل کر
مریض محبت وہ لاغر ہے جس کو
سنبھالا سنبھالے گا ڈر کر سنبھل کر
یہ کہتی ہے مجھ سے مری شرم عصیاں
نہ جاؤں گا ملک عدم سے نکل کر
گرہ کھولنے دیں وہ بند قبا کی
الٰہی کہیں میری مشکل کو حل کر
پس امتحاں چاہ تم سے کروں گا
گروں گا کنویں میں سمجھ کر سنبھل کر
اچک لیں گی اس بت کی ترچھی نگاہیں
بھوؤں سے اگر جائے گا بل نکل کر
مرے سینہ پہ چھوڑ جاتے ہیں پیکاں
وہ دل پھیر دیتے ہیں صورت بدل کر
تری بزم میں ایک خوش ایک غمگیں
کوئی عطر مل کر کوئی ہاتھ مل کر
زہے رشک جن میں کمر تھی کسی کی
مٹا دیں لکیریں وہ ہاتھوں کو مل کر
رہیں تیر قاتل مرے دل میں راسخؔ
الٰہی نہ جائیں یہ پریاں نکل کر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.