رہا جب نہ امکان ضبط فغاں کا
رہا جب نہ امکان ضبط فغاں کا
کیا قصد بے درد نے امتحاں کا
گلستاں میں ہے دور فصل خزاں کا
عجب رنگ ہے گردش آسماں کا
ہوا سامنا آفت ناگہاں کا
پتا چل گیا برق کو آشیاں کا
کٹا حشر کا دن گلہ کرتے کرتے
ہوا ختم قصہ نہ جور بتاں کا
اٹھائیں کہاں تک اسیر محبت
جفائیں تمہاری ستم آسماں کا
یقیں ہے کہ اہل زمیں مرتے مرتے
نہ بھولیں گے ہرگز ستم آسماں کا
لگاتے ہیں آنکھوں سے اہل بصارت
سمجھتے ہیں رتبہ ترے آستاں کا
رہے کان مشتاق بانگ جرس کے
نہ پایا نشاں آج تک کارواں کا
کھٹکتے ہیں آنکھوں میں کیوں چار تنکے
تجسس ہے صیاد کیوں آشیاں کا
ترے تیرہ بختوں کی آہوں سے ظالم
اڑے گا دھواں بن کے رنگ آسماں کا
شریک غم جانکنی کون ہوگا
سہارا فقط ہے دل ناتواں کا
قفس کی حفاظت سے صیاد حاصل
نکلتا ہے دم طائر نیم جاں کا
پشیماں گناہوں سے ہیں اہل عصیاں
بپا شور محشر میں ہے الاماں کا
بقا دار دنیا کو مسعودؔ کے دن
یہاں خاک طالب ہوں نام و نشاں کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.