رہا روشن ہمیشہ مطلع فکر و نظر اپنا
رہا روشن ہمیشہ مطلع فکر و نظر اپنا
ہتھیلی کا چراغ اور دار کا سورج ہے سر اپنا
کریں وہ سنگ باری شوق سے حاضر ہے سر اپنا
مگر جی بھر کے پہلے دیکھ لیں شیشے کا گھر اپنا
مرا احساس محرومی نہیں اظہار مایوسی
ابھی کیا ہے ابھی تو دوش پر باقی ہے سر اپنا
چھپاؤں اس چمن میں کس طرح کانٹوں بھرا دامن
کہ میں نے دے کے سینچا تھا جسے خون جگر اپنا
میں وہ آئینۂ جور و جفائے ناز ہوں جس کو
اگر دیکھے تو خود سر پیٹ لے آئینہ گر اپنا
میں کس منہ سے کروں اب گردش ایام کا شکوہ
تلاش اس کو کسی کی تھی بتا بیٹھا میں گھر اپنا
نقاب رخ الٹ کر بام پر اب تم بھی آ جاؤ
میں پھیلائے ہوئے ہوں دامن ذوق نظر اپنا
کوئی کیسے بدل سکتا ہے فطرت کے تقاضوں کو
کہ ہجرت کے حوالے سے جو یاد آتا ہے گھر اپنا
جو بیماری کی سن کر ضبطؔ آتے ہیں عیادت کو
بھرا رہتا ہے اکثر ایسے مہمانوں سے گھر اپنا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.