رہے ہم آشیاں میں بھی تو برق آشیاں ہو کر
رہے ہم آشیاں میں بھی تو برق آشیاں ہو کر
لگا دی آگ اپنے گھر میں سرگرم فغاں ہو کر
نہ اپنے غم زدوں کو خوش کرو اب مہرباں ہو کر
بتو تم خوش رہو ہم کیا کریں گے شادماں ہو کر
کھلے غنچے نہ بو پھوٹی نہ شاخ گل پھلی پھولی
قفس میں جب سے ہم آئے بہار آئی خزاں ہو کر
چلے ہو گل بداماں کچھ تو کہتے جاؤ ان سے بھی
کہ تم سے کہہ رہے ہیں کچھ عنادل ہم زباں ہو کر
جواں ہونے نہ پائے تھے کہ دل آیا حسینوں پر
اجل یہ کہتی آئی کیا کرو گے تم جواں ہو کر
ہوئے پست ایسے ان کی خاک بھی اڑتے نہیں دیکھی
رہے رہنے کو کتنے اس زمیں پر آسماں ہو کر
جو کھل کر وار موسیٰ پر تو ہم پر چوٹ پردے میں
وہی جلوہ عیاں ہو کر وہی جلوہ نہاں ہو کر
قیامت ان کی چھیڑیں ہیں مرے بیتاب کرنے کو
جو ناوک آئے چٹکی سے تو ان کی چٹکیاں ہو کر
ملایا خاک ہو کر حسرتوں کو اپنی مٹی میں
چھپایا کارواں کو ہم نے گرد کارواں ہو کر
کبھی تقریر ساقی میں جو لغزش اس نے پائی ہے
تو موج مے نے ہم سے گفتگو کی ہے زباں ہو کر
یہ رنگیں نعرۂ مستانہ کس کے ہیں ارے زاہد
صدا ناقوس کی دے دی کہیں گونجی اذاں ہو کر
ترے کوچے میں پیسا ہے اسی نے ہم غریبوں کو
گرا ہے سایۂ دیوار ہم پر آسماں ہو کر
کسی محرم سنبھالے گی نہ دہرائے ہوئے آنچل
رہیں گے وہ نہ قابو میں کسی کے بھی جواں ہو کر
دکن میں کیا وزیر فوج نے مہماں نوازی کی
جناب شادؔ کے در سے پھرے ہم شادماں ہو کر
ریاضؔ اس وضع سے پہنچے کہ بولے میکدے والے
بزرگ خضر صورت آئے جنت میں جواں ہو کر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.