رہے گا عقل کے سینے پہ تا ابد یہ داغ
رہے گا عقل کے سینے پہ تا ابد یہ داغ
کہ زندگی نے بھی پایا نہ زندگی کا سراغ
عجیب طرح گزارا ہے دور تیرہ شبی
جلا جلا کے بجھائے ہیں میں نے کتنے چراغ
ہے جینے والوں کی خاطر یہ کیسی مجبوری
نہ زندگی کا فراغ اور نہ زندگی سے فراغ
یہ کچھ ہمارے ہی قلب تپیدہ کو ہے خبر
فروغ نور سے کیا کیا نہ جل بجھے ہیں چراغ
ہے روشنی کے لئے روشنی پیام اجل
سحر قریب ہے اور جھلملا رہے ہیں چراغ
مجھے بتا کہ ہے اس مے میں کیف مے کتنا
میں جانتا ہوں کہ خالی نہیں کسی کا ایاغ
کسی طرح سہی بدلے تو رسم پارینہ
اگائے جاؤ بیاباں اجاڑتے چلو باغ
دکھا رہا ہوں میں دنیا کو دل کا آئینہ
بہ ایں یقیں کہ نہیں ماہتاب بھی بے داغ
یہ رات محفل آدم پہ ہے گراں حرمتؔ
بھڑک اٹھے ہیں خود اپنی ہی روشنی سے چراغ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.