رکھے ہیں آپ ہاتھ جہاں اب وہاں نہیں
رکھے ہیں آپ ہاتھ جہاں اب وہاں نہیں
ہم کیا بتائیں درد کہاں ہے کہاں نہیں
دل لے گئے وہ درد محبت کہاں رہے
عبرت کا ہے محل کہ مکیں ہے مکاں نہیں
اے برق کس کے واسطے بیتاب آج ہے
اس باغ میں مرا تو کہیں آشیاں نہیں
قاتل سمجھ کے آج ذرا تیغ ناز کھینچ
یہ امتحاں ترا ہے مرا امتحاں نہیں
چھوٹیں گے عمر بھر تری زلفوں کے کیا اسیر
کاٹے کٹیں کسی کے یہ وہ بیڑیاں نہیں
لو اک جہاں انہیں کا طرف دار ہو گیا
محشر میں آج کوئی مرا ہم زباں نہیں
دنیا میں حشر اٹھے بھی تو کیا دیکھ کر اٹھے
میرے مزار کا تو کہیں بھی نشاں نہیں
تم کیا بدل گئے زمانہ بدل گیا
اب وہ زمیں نہیں ہے وہ اب آسماں نہیں
مسکن زمین شعر میں صفدرؔ بنا لیا
رہتے ہیں اس زمیں پہ جہاں آسماں نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.