رخت سفر سفر سے الگ کر دیا گیا
رخت سفر سفر سے الگ کر دیا گیا
خوابوں کو چشم تر سے الگ کر دیا گیا
آدم سے جا کے ملتا ہے جب سب کا سلسلہ
پھر کیوں بشر بشر سے الگ کر دیا گیا
بے گھر ہوئے ہیں کتنے پرندے نہ پوچھئے
شاخوں کو جب شجر سے الگ کر دیا گیا
رشتوں کے سبز باغ دکھائے گئے مجھے
اور اس کے بعد گھر سے الگ کر دیا گیا
دشمن سے لڑ رہا ہے ابھی میرا حوصلہ
حالانکہ جسم سر سے الگ کر دیا گیا
شب خون مار کر مری نیندوں پہ التمشؔ
خوابوں کی رہ گزر سے الگ کر دیا گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.