رنگ سا پھرتا ہے زیر آسماں دیکھا ہوا
رنگ سا پھرتا ہے زیر آسماں دیکھا ہوا
روبرو اک عکس ہے جانے کہاں دیکھا ہوا
کس کے ہونے کی خبر دیتے ہیں یہ دیوار و در
جانے کیوں لگتا ہے مجھ کو یہ مکاں دیکھا ہوا
اک گھروندا ہولے ہولے گھل رہا ہے آج بھی
ایک منظر ہے تہہ آب رواں دیکھا ہوا
میں تو پہلی بار آیا تھا تمہارے شہر میں
ناگہاں مجھ کو لگا شہر گماں دیکھا ہوا
اک مہک بن کر نظر اٹھتی ہے میری چار سو
میں تو پہروں دیکھتا ہوں یہ جہاں دیکھا ہوا
ہر گھڑی پایا نیا دھڑکا پرانے رنگ کا
آگ ان دیکھی لگی اٹھا دھواں دیکھا ہوا
دن نکلتے ہی گھروں سے چل پڑے تیشہ بکف
سورج ابھرا ہے کہ اک کوہ گراں دیکھا ہوا
ماند رہ جائے گی اس شب آنسوؤں کی آب بھی
چاند پھر نکلا پس دیوار جاں دیکھا ہوا
آسماں تھا یا شکستہ چھت اندھیری قبر کی
رات بھر دیکھا کیا میں آسماں دیکھا ہوا
ساتھ چلتا ہے کنارے پر کناروں کی طرح
کیا کہوں خالدؔ کہ ہے یہ مہرباں دیکھا ہوا
- کتاب : funoon-volume-21 (Pg. 268)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.