رقص کرتی ہیں فلک پر بجلیاں اب کیا کروں
رقص کرتی ہیں فلک پر بجلیاں اب کیا کروں
میری پونجی ہے یہی اک آشیاں اب کیا کروں
عار ہے سننے سے ان کو داستاں اب کیا کروں
میرے قابو میں نہیں میری زباں اب کیا کروں
عالم غربت ہے میں ہوں اور اندھیری رات ہے
لٹ گیا ایسے میں سارا کارواں اب کیا کروں
لیجئے رونے لگے ہچکی بندھی غش کر گئے
اور ابھی ہے ابتدائے داستاں اب کیا کروں
دور منزل ناتوانی سے قدم اٹھنا محال
کیا کروں اے چارہ ساز بے کساں اب کیا کروں
دل میں آیا تھا کہ کھینچوں ایک آہ پر اثر
ان کی صورت آ گئی پھر درمیاں اب کیا کروں
دور ساحل نا خدا مایوس طوفاں کا شباب
ڈوبتی ہے کشتیٔ عمر رواں اب کیا کروں
رہتے رہتے جب مجھے زنداں سے الفت ہو چلی
حکم ہوتا ہے کہ کاٹو بیڑیاں اب کیا کروں
ساتھیوں تک گرتے پڑتے میں پہنچ جاتا سعیدؔ
بن گئی دیوار گرد کارواں اب کیا کروں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.