رقص میں آج کہیں شعلۂ انکار ہے کیا
رقص میں آج کہیں شعلۂ انکار ہے کیا
یوں نہیں ہے تو دھواں سا پس دیوار ہے کیا
وارداتیں جو گزرتی ہیں ٹھٹھک جاتی ہیں
تیرے اطراف کوئی راستہ بیدار ہے کیا
لگ گئی آگ ترے آنے سے گلزاروں میں
اب بتا حال ترا ابر خوش آثار ہے کیا
اس کے خاموش تکلم کو جو دیکھا تو کھلا
گفتگو کہتے ہیں کس چیز کو اظہار ہے کیا
کیوں ترا چہرہ نظر آتا ہے ٹکڑے ٹکڑے
اب شکستہ ترا آئینۂ کردار ہے کیا
کو بہ کو پوچھتا پھرتا ہوں میں سب سے یہ سوال
دید کہتے ہیں کسے دولت دیدار ہے کیا
اس کے کوچے سے اجالوں کا سفر جاری ہے
خیمہ زن قافلۂ ثابت و سیار ہے کیا
رات ہوتی ہے تو بڑھ جاتا ہے شور گریہ
آج کل میرا پڑوسی کوئی بیمار ہے کیا
میری ٹھوکر میں پڑے رہتے ہیں افلاک تمام
شوق اظہار نہیں ورنہ یہ کہسار ہے کیا
قیمت حسن تو موقوف ہیں مداحوں پر
نہ خریدار ہو موجود تو بازار ہے کیا
بحر مواج میں تنکے پہ بھروسہ نہ کرو
سر پہ سورج ہو تو پھر سایۂ دیوار ہے کیا
اتنا روشن تو نہیں مہر فلک بھی یاورؔ
افق فکر پہ آخر یہ نمودار ہے کیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.