روشنی لے کر اندھیری رات میں نکلا نہ کر
روشنی لے کر اندھیری رات میں نکلا نہ کر
رات پردے کے لیے ہے خود کو بے پردا نہ کر
دہر کا پھیلاؤ بھی نقطہ نظر آنے لگے
شعر کہتا ہے تو کہہ اتنا مگر سوچا نہ کر
ایک دن تو بھی کسی تارے سے ٹکرا جائے گا
دوست میرے رات کی گلیوں میں یوں گھوما نہ کر
چاند بھی اترا تھا پچھلی شب اسی تالاب میں
کیوں چمکتا ہے نہا دھو کر بدن پونچھا نہ کر
آئنہ چمکائے رکھ سب کچھ نظر آ جائے گا
جس کی چاہت ہو اسے خود سے جدا سمجھا نہ کر
دوپہر کی لہر چہرے کو جھلس دے گی خلیلؔ
گھر کی ٹھنڈک چھوڑ کر پیڑوں تلے بیٹھا نہ کر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.