روشنی مجھ سے گریزاں ہے تو شکوہ بھی نہیں
روشنی مجھ سے گریزاں ہے تو شکوہ بھی نہیں
میرے غم خانے میں کچھ ایسا اندھیرا بھی نہیں
پرسش حال کی فرصت تمہیں ممکن ہے نہ ہو
پرسش حال طبیعت کو گوارا بھی نہیں
یوں سر راہ ملاقات ہوئی ہے اکثر
تم نے دیکھا بھی نہیں ہم نے پکارا بھی نہیں
عرض احوال کی عادت بھی نہیں ہے ہم کو
اور حالات کا شاید یہ تقاضا بھی نہیں
بے نیازانہ گزر جائے گزرنے والا
میرے پندار کو اب شوق تماشا بھی نہیں
ہاتھ پھیلاؤں میں عیسیٰ نفسوں کے آگے
درد پہلو میں مرے ہے مگر اتنا بھی نہیں
اک شکن ماتھے پہ دیکھی تھی تمھارے ہم نے
پھر کبھی آنکھ اٹھا کر تمہیں دیکھا بھی نہیں
آخری بار ہنسی آئی تھی کب یاد نہیں
اور پھر آئے ہنسی اس کی تمنا بھی نہیں
میرے حالات نہ بدلے تو نہ بدلیں اقبالؔ
مجھ کو حالات پہ کچھ ایسا بھروسہ بھی نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.