روشنی یوں در و دیوار سے آنے لگی ہے
روشنی یوں در و دیوار سے آنے لگی ہے
ایسے لگتا ہے مرا جسم جلانے لگی ہے
سال کے اور مہینے بھی تو ہوتے ہیں یہاں
کیوں دسمبر میں تری یاد ستانے لگی ہے
اس طرح پہلے کبھی ٹوٹ کے بکھرے ہی نہ تھے
جس طرح اب کہ شناسائی بھی جانے لگی ہے
تجھ کو سوچا تجھے دیکھا تجھے چاہا میں نے
اب کہیں جا کے مری ذات ٹھکانے لگی ہے
کوئی ہم شکل ہے میرا کہ کوئی وہم ہے یہ
یہ جو تنہائی بھی اب آنکھ دکھانے لگی ہے
میں تو بے رنگ سا اک فرد ہوں اور تیز ہوا
نقش سادہ کو بھی شہزادؔ مٹانے لگی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.