رواں ہوا ہے مرے آہ کا دھواں سر پر
رواں ہوا ہے مرے آہ کا دھواں سر پر
نہیں ہے ابر نہیں ہے یہ آسماں سر پر
روا نہیں ہے تری شمع سی مثال اے دوست
دہن میں تیرے زباں اس کی ہے زباں سر پر
رلایا ہجر نے اک بحر حسن کے ایسا
کہ اپنے اشک کا دریا ہوا رواں سر پر
رہے گا عالم اسباب کا یہیں اسباب
کوئی اٹھا کے نہ لے جائے گا مکاں سر پر
خیال ابروئے قاتل کیا جو فرقت میں
پہنچ گئی وہیں شمشیر اصفہاں سر پر
چمن میں غنچہ و گل ہاتھ پاؤں کیا پھیلائیں
ہر ایک وقت کھڑی رہتی ہے خزاں سر پر
ریائے دلق سے بیزار ہیں جو ہیں آزاد
عمامہ بھی مجھے ایک بوجھ ہے گراں سر پر
رضا دے مجھ کو کہ بیٹھوں چمن میں دیکھوں بہار
کھڑی ہوئی ہے ارے باغباں خزاں سر پر
رہا مجھے نہ کرے گا تو دیکھ اے صیاد
میں شور کر کے اٹھا لوں گا آسماں سر پر
رکے نہیں تو بھلا آج کیوں یہ بے معمول
سلام کو نہ رکھا ہاتھ مہرباں سر پر
رکھو نہ خوف کو خورشید حشر کے باقیؔ
رہے گا حیدر کرار کا نشاں سر پر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.