رویہ دیکھ کر ان کا تو ہم ناشاد ہو بیٹھے
رویہ دیکھ کر ان کا تو ہم ناشاد ہو بیٹھے
بھلا لہجے سے وہ کیوں نشتر فصاد ہو بیٹھے
زمانے بھر میں اپنے نام کا ڈنکا بھی بجتا تھا
پر اجڑے یوں کہ ہم تو صورت بغداد ہو بیٹھے
کہا فرہاد نے اپنی مریدی میں مجھے لے لیں
سنا کر قصۂ غم مرشد فرہاد ہو بیٹھے
عمارت اپنے خوابوں کی بنانے کا کیا آغاز
تو خود ہم اینٹ بن بیٹھے خودی بنیاد ہو بیٹھے
گئے وقتوں میں ایسا تھا یہاں کچھ کم شکاری تھے
نئے وقتوں میں دیکھو تو سبھی صیاد ہو بیٹھے
یہاں پر کون زندہ اب رکھے اپنی روایت کو
یہاں پر لوگ جو مادر پدر آزاد ہو بیٹھے
جنہیں تھا عشق سے مطلب وہ سولی چڑھ گئے آخر
جنہیں دولت سے مطلب تھا وہ سب شداد ہو بیٹھے
اثر بے موسمی طوفان کا گلشن پہ گہرا ہے
کبھی جو پھول ہوتے تھے وہ اب فولاد ہو بیٹھے
کبھی غلطی سے جو مصرع ملا لیتے ہیں اکثر وہ
سمجھتے ہیں کہ اب ہم میرؔ کے استاد ہو بیٹھے
کسیں اقبالؔ پر بولی کریں باتیں غزالیؔ پر
بلا تحقیق ہی یہ سب یہاں نقاد ہو بیٹھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.