ریت پہ نقش بناتے ہوئے تھک جاتے ہیں
ریت پہ نقش بناتے ہوئے تھک جاتے ہیں
خواب آنکھوں میں سجاتے ہوئے تھک جاتے ہیں
یوں ہی قبروں میں نہیں سوئے تھکے ہارے بدن
لوگ دنیا سے نبھاتے ہوئے تھک جاتے ہیں
زندگی پیاس کا صحرا ہے جہاں قید ہیں ہم
اور ہم پیاس بجھاتے ہوئے تھک جاتے ہیں
مہرباں کوئی نہیں شہر میں اک تیرے سوا
یوں تو ہم ہاتھ ملاتے ہوئے تھک جاتے ہیں
چھوڑ جاتے ہیں وہی لوگ کڑے وقت میں کیوں
ہم جنہیں اپنا بتاتے ہوئے تھک جاتے ہیں
ڈستے رہتے ہیں کئی لوگ یہاں سانپ مزاج
اور ہم زخم چھپاتے ہوئے تھک جاتے ہیں
لوٹ آؤ نہ کسی روز اے جانے والو
ہم غم ہجر چھپاتے ہوئے تھک جاتے ہیں
ان کے سینوں میں بھی ہوتے ہیں تلاطم غم کے
وہ جو اوروں کو ہنساتے ہوئے تھک جاتے ہیں
زندگی اور ترا قرض چکائیں کب تک
اب تو ہم شعر سناتے ہوئے تھک جاتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.