ریزہ ریزہ ہی تھا مسمار پرانا گھر تھا
ریزہ ریزہ ہی تھا مسمار پرانا گھر تھا
اپنے ہونے سے ہی بیزار پرانا گھر تھا
سلوٹیں جسم کی جیسی ہی تھیں دیواروں پر
اور نظروں میں مگر پیار پرانا گھر تھا
تجربہ عمر میں پنہاں تھا لیاقت جیسے
جیسے روشن کوئی مینار پرانا گھر تھا
اکھڑا اکھڑا سا تھا لہجہ تو ٹپکتی چھت تھی
پر تھا سایہ بھی فگن دار پرانا گھر تھا
بکھرا بکھرا تھا محبت میں مگر یکجا تھا
تھا ہمارا بھی تو غم خوار پرانا گھر تھا
کونا کونا تھا ہمارے لیے پیرو کاری
اور خود کے لئے نادار پرانا گھر تھا
خود کے ایمان کی بھی فکر دعا بھی سب کو
پھول ہی پھول تھے گلزار پرانا گھر تھا
شاہؔ جب سے وہ گیا درد کا درماں دے کر
پھول لگتے ہیں مجھے خار پرانا گھر تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.