رفاقتوں کا طلب گار بھی نہ ہوتا تھا
رفاقتوں کا طلب گار بھی نہ ہوتا تھا
مگر کسی سے وہ بے زار بھی نہ ہوتا تھا
کل اس کے خواب تھے جو آج اپنی دنیا ہے
فسانہ ساز فسوں کار بھی نہ ہوتا تھا
سبک روی کی وہیں شرط بھی ٹھہرتی تھی
جہاں سے راستہ ہموار بھی نہ ہوتا تھا
مرے سرہانے اٹھاتی تھیں حشر تعبیریں
ابھی میں خواب سے بیدار بھی نہ ہوتا تھا
ہواؤں سے تھا گریزاں وہ خود گرفتہ پرند
کسی کے ہاتھوں گرفتار بھی نہ ہوتا تھا
نہاں ہوں آنکھ سے بارش میں دوڑتے شعلے
سماں کچھ اتنا دھواں دھار بھی نہ ہوتا تھا
گزر دلوں سے ہو سب اس ہوا میں تھے لیکن
کوئی کسی کا طرف دار بھی نہ ہوتا تھا
مرا سکوت نہ ہو قفل باب معنی یاسؔ
بیاں حروف کی دیوار بھی نہ ہوتا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.