روز اک ہنگامۂ خالی اٹھا جاتے ہیں دن
روز اک ہنگامۂ خالی اٹھا جاتے ہیں دن
اور ہم بے کار میں سارا بتا جاتے ہیں دن
کیوں ہم اس انبوہ میں دل کا لہو کرتے رہیں
خاک میں ساری تمنائیں ملا جاتے ہیں دن
لمحہ لمحہ اپنا شیرازہ بہم کرتے ہیں ہم
کیسے کیسے آدمی کو کیسا کھا جاتے ہیں دن
قرض بڑھتا جا رہا ہے ساعت فردا کا اور
ایک دن گزرا نہیں ہے اور آ جاتے ہیں دن
ہنستے ہنستے دھیان کب ہوتا ہے آنکھوں پر ہمیں
اک ذرا سی دیر لگتی ہے رلا جاتے ہیں دن
عمر کے پچیسویں حصے میں یہ حاصل ہوا
رائیگاں جانے سے پہلے ہی بتا جاتے ہیں دن
سربسر ہم وحشت آئندہ و امروز ہیں
ایسے بے حالت کو اکثر کیوں دکھا جاتے ہیں دن
اب کہاں وہ محفل بادہ وہ سرمستی امیرؔ
بس گھڑی بھر کے لیے مہمان آ جاتے ہیں دن
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.