رکا سا تھا کوئی منظر مگر ٹھہرا نہیں تھا
رکا سا تھا کوئی منظر مگر ٹھہرا نہیں تھا
لرزتی یاد کا آنسو تھا اور بہتا نہیں تھا
سمجھتے تھے وہ کم آمیزیٔ دروازۂ دل
بہت دستک تھی لیکن زخم آوازہ نہیں تھا
بصارت میں کسی نادیدہ وحشت کی رڑک تھی
بھٹکتی آنکھ میں کس دشت کا ٹکڑا نہیں تھا
صبا ہم راہ سطح آب میں بہتا کہاں تک
تمنا گھل رہی تھی اور بدن سچا نہیں تھا
کھلا پھر رات کے کہرے پہ آخر رات کھو کر
ہوا کے ہاتھ میں جو عکس تھا اس کا نہیں تھا
سلگتی رات کی رانی لپٹ کی آس میں تھی
بجھی رت کی ہتھیلی پر دیا کھلتا نہیں تھا
ہمی بیتاب تھے ذرے کا تارا تاپتے تھے
خدا کے آئنے میں کون سا صحرا نہیں تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.