رخ اپنی تمناؤں کا اب موڑ رہا ہوں
رخ اپنی تمناؤں کا اب موڑ رہا ہوں
اک ٹوٹے ہوئے شخص کو میں جوڑ رہا ہوں
منزل کا تعین ہے نہ سانسوں کا بھروسہ
میں وقت کی تقلید میں بس دوڑ رہا ہوں
میں اوروں کے حصے کے بھی دم پھونک نہ جاؤں
یہ سوچ کے جلدی سے میں دم توڑ رہا ہوں
جس سحر نے توڑا ہے مجھے حال میں آ کر
ماضی میں اسی سحر کا میں توڑ رہا ہوں
انسان کی تکمیل ہے رہ جانا ادھورا
کچھ کام ادھورے میں تبھی چھوڑ رہا ہوں
جس شاخ کو چھونے سے ہوا خلد سے باہر
میں آج بھی اس شاخ سے پھل توڑ رہا ہوں
اک غم سے ہے اشکوں کے تعلق کی وضاحت
میں اشک سے پتھر کو اگر توڑ رہا ہوں
جدت کا تقاضہ ہے الٹ بات تو کاظمؔ
دیوار کو میں سر سے میاں پھوڑ رہا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.