رخ رنگیں پہ اشکوں کی روانی اب بھی ہوتی ہے
رخ رنگیں پہ اشکوں کی روانی اب بھی ہوتی ہے
سنا ہے مجھ پہ ان کی مہربانی اب بھی ہوتی ہے
سکوت عشق اظہار تمنا اب بھی کرتا ہے
نگاہ ناز صرف لن ترانی اب بھی ہوتی ہے
تغافل نے کسی کے کر دیا بیزار جینے سے
مگر امید وجہ زندگانی اب بھی ہوتی ہے
ستارے بے پلک جھپکائے سنتے ہیں یہ افسانہ
لب مہتاب پر تری کہانی اب بھی ہوتی ہے
بہاروں کو جو لوٹے وہ جوانی اب نہ ہو لیکن
بہاریں جس کو لوٹیں وہ جوانی اب بھی ہوتی ہے
یہ مانا راز دل کہہ کر دل اپنا کر لیا ہلکا
مگر محسوس ان کی سر گرانی اب بھی ہوتی ہے
ترے وعدے بدل سکتے نہیں میری طبیعت کو
ترے وعدوں پہ اکثر بد گمانی اب بھی ہوتی ہے
امیدیں ہیں چراغ رہ گزر ان کا بھروسہ کیا
بسر تاریکیوں میں زندگانی اب بھی ہوتی ہے
سمجھتے تھے جو آنکھوں کی زباں وہ اب کہاں لیکن
نگاہوں سے دلوں کی ترجمانی اب بھی ہوتی ہے
جسے سنتے تھے ہم تم چاند کی ٹھنڈی شعاعوں میں
ستاروں کی زباں پر وہ کہانی اب بھی ہوتی ہے
ہوئی مدت کہ زخم آرزو مرجھا گئے لیکن
مری صورت ترے غم کی نشانی اب بھی ہوتی ہے
چمن والوں کے آداب جنوں کا معجزہ کہئے
کہ دامان خزاں سے گل فشانی اب بھی ہوتی ہے
بہت کچھ دے چکی ہے زندگی کو اس کا حق دنیا
مگر بے کیف مفلس کو جوانی اب بھی ہوتی ہے
مرے اشکوں سے صفدرؔ اب بھی بھر جاتا ہے جام اپنا
بغیر ان کے مئے گل رنگ پانی اب بھی ہوتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.