رخ سے برقع جو الٹ دے وہ تو آفت ہو جائے
رخ سے برقع جو الٹ دے وہ تو آفت ہو جائے
قد کشی ہو تو نمودار قیامت ہو جائے
دولت حسن بتاں سے تو نہ رہئے محروم
بادشاہی نہ ہو پر عشق کی دولت ہو جائے
حال دیکھے ترے حیراں کا جو اے آئنہ رو
ہے یقیں دیدۂ تصویر کو رقت ہو جائے
نام گھر جانے کا لے یار اگر تو شب وصل
خانۂ تن سے یہاں جان بھی رخصت ہو جائے
طائر باغ اسیران بلا ناحق ہیں
ابھی اڑ جائیں تصور میں جو ہمت ہو جائے
انتظار بت بے پیر سے کیا اس کا عجب
مر گئے پر بھی جو وا دیدۂ حسرت ہو جائے
دوستوں کا یہ ہوا حال کہ کہتی ہے خلق
دشمنوں کو بھی ترے ساتھ نہ الفت ہو جائے
اک نظر دیکھے ترا حسن جو اے آئینہ رو
ابھی تصویر کا وا دیدۂ حیرت ہو جائے
طبع عالی یہی کہتی ہے قلم سے ہر دم
شعر وہ لکھ تو کہ آفاق میں شہرت ہو جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.